بیجنگ:دنیا بھر میں خواتین پر تشدد اور مردوں کی حکمرانی کی مثالیں تو عام ہیں لیکن چین میں ایک ایساقبیلہ بھی ہے جہاں کھیتوں میں کام کرنے سے لے کر امور خانہ داری تک عورت کی حکمرانی ہے ، خاندانی وراثت کا حق داربھی صرف عورت کو تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ مرد بے چارے صرف گھر کے چھوٹے موٹے کام نمٹانے تک محدود کردئیے گئے ،قبیلے میں کتے اور گھر کی بزرگ خواتین کو خاصی اہمیت حاصل ہے تاہم زیادہ عمررسیدہ ہونے پر باعزت گھر کی کسی بااعتبارخاتون کو ”چابیاں“منتقل کردی جاتی ہیں ، بچوں کے بلوغت کو پہنچنے پر خصوصی تقاریب کا اہتمام ہوتاہے اور اب ایک قسم کی قانونی طور پر خواتین کی ”عصمت دری“کی وجہ سے قبیلے کی ثقافت کو خطرات لاحق ہیں ۔ چین کا موسوقبیلہ تبت کے علاقے سے متصل چین کے صوبے یونان اور سیچوان میں صدیوں سے سکونت پذیر ہے۔ چین کے شمال مغرب میں واقع لوگوجھیل کے کنارے آباد اس قبیلے کے افراد کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے اوراس کی شہرت کی ایک وجہ شادی کا رواج ہے۔ موسو باقاعدگی سے روایتی انداز میں شادی نہیں کرتے بلکہ شوہر کو رات گزارنے کے لئے اپنی بیوی کے میکے آنا پڑتا ہے اور اس آمد کو خفیہ رکھا جاتا ہے جو صبح ہوتے ہی گھر سے چلا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایسی شادیوں کو ”والکنگ میرجز“ کہا جاتا ہے اور جب تک مرد و عورت کے درمیان پیار رہتا ہے وہ ایک ساتھ شب گزاری کرتے ہیں۔ اس طرح کی شادی میں لڑکی کے گھر والوں کا رضامند ہونا بھی ضروری ہے۔ موسو عورت ایک وقت میں ایک ہی ساتھی رکھتی ہے تاہم وہ جب چاہے اپنا ساتھی تبدیل کرسکتی ہے، لیکن زیادہ تر موسو عورتیں لمبے عرصے تک ایک ہی مرد رکھتی ہیں، ان عورتوں میں ایسی بھی ہیں جنہوں نے سارے زندگی ایک ہی شخص کے ساتھ گزاردی ہے لیکن ساری عمر ماں کے ساتھ رہتی ہیں تاہم باپ اپنے بچوں سے مل سکتا ہے۔ موسو معاشرے میں چونکہ عورت کی حکمرانی ہے، اس لئے لڑکے کی نسبت لڑکی کی پیدائش پر زیادہ خوشیاں منائی جاتی ہے۔ بچے ہمیشہ ماں کے خاندان سے پہچانے جاتے ہیں لیکن بچے کے باپ کا نام جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ موسو قبیلے میں لڑکا اور لڑکی کے لئے 13 سال کی عمر سن بلوغت شمار کی جاتی ہے۔ اس موقع پر ایک تقریب ”آمد شباب“ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں تمام موسوبچے ایک جیسا لباس پہنتے ہیں۔ تقریب میں لڑکیاں اپنے سکرٹ اور لڑکے اپنے پاجامے پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس تقریب کو ”سکرٹ تقریب“ (لڑکی کے لئے) اور ”پاجامہ تقریب“ (لڑکے کے لئے) بھی کہاجاتا ہے۔ تقریب کے اختتام پر لڑکی کو ایک الگ کمرہ (پھولوں والا کمرہ) الاٹ کیا جاتا ہے، جہاں وہ ”والکنگ میرج“ کے لئے اپنے ساتھی کا انتخاب کرتی ہے۔ 13 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جو بچے مر جاتے ہیں، ان کی تدفین کے موقع پر روایتی مذہبی رسومات ادا نہیں کی جاتیں۔ موسو لوگ بڑے خاندان کی شکل میں ایک ساتھ رہنا پسند کرتے ہیںاور اسی لئے ان کے یہاں روایتی شادی کی عدم موجودگی کے باوجود خاندانی نظام بہت مضبوط ہے۔ گھر کی بزرگ عورت گھر کی سربراہ کہلاتی ہے جسے مطلق العنان اختیارات حاصل ہوتے ہیں، وہ اپنے اہل خانہ کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ وہ گھر والوں کی ذمہ داریوں کا تعین کرتی ہے اور پیسوں کا حساب کتاب رکھتی ہے۔ جب بزرگ خاتون محسوس کرتی ہے کہ وہ اب انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں رہی تو وہ اپنی جگہ گھر کی دوسری عورت کو دے کر گھر کی تمام چابیاں اس کے حوالے کردیتی ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے اپنے تمام اختیارات اور وراثتی حقوق اسے سونپ دئیے ہیں۔ موسو معاشرے میں ہر چیز خود عورت سرانجام دیتی ہے لیکن تدفین کی ساری رسومات مرد حضرات کے ہاتھوں انجام پاتی ہیں۔ اس موقع پر گھر والوں اور مہمانوں کے کھانے پینے کے سارے انتظامات مرد کرتے ہیں۔ موسو معاشرے میں کتے کو بہت زیادہ اہمیت اور عزت دی جاتی ہے۔ چین میں کتے کو گوشت کھانے کا رجحان پایا جاتا ہے مگر موسو کتے کا گوشت نہیں کھاتے، کتے کو مارنے کی بھی سخت ممانعت ہے اور اس فعل کو بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے، کتا موسو خاندان کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ موسو لوک کہانی کے مطابق ہزاروں سال پہلے کتے کی طبعی عمر 60 سال اور انسانوں کی 13 سال ہوا کرتی تھی، پھر انسانوں نے کتے کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ اگر کتے اپنی طبعی عمر کا تبادلہ انسان کی طبعی عمر سے کرلیں تو انسان بدلے میں ان کی بہت تعظیم کرے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اس لئے موسوﺅں کے نزدیک کتا معتبر جانور ٹھہرا۔ آج بھی موسو بچوں کا جشن غفوان شباب بناتے ہیں تو سب سے پہلے کتے کی جوانی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ موسو مقامی طور پر گندم کی شراب ’سولیما‘ بنانے میں شہرت رکھتے ہیں جس کا شمار تیز شرابوں میں ہوتا ہے۔ اس شراب کو عام دنوں کے علاوہ مذہبی تہواروں اور میلوں کے مواقع پر نوش کیاجاتا ہے، معاشرے میں بارٹر سسٹم رائج ہے۔ موسو عورتیں ہر قسم کے کام کرنا جانتی ہیں۔ کھیتوں میں ہل چلانے، بیج بونے اور فصل کاٹنے سے لے کر گھر کا چولہا ہانڈی کرنے اور مویشی پالنے کے کاموں میں وہ مردوں کی محتاج نہیں، ماضی میں جب موسو کا دیگر قوام سے بالکل جول نہ تھا اور وہ الگ تھلگ رہنا پسند کرتے تھے، اس وقت موسو عورتوں کو ہر چیز خود بنانی پڑتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ سوت سے دھاگا بنا کر کپڑا تک تیار کرلیا کرتی تھیں لیکن آج جب باہری دنیا کے لوگ موسوﺅں کے علاقے کے قریب آباد ہوچکے ہیں تو ان کے ساتھ تجارتی روابط بڑھنے سے موسوعورتوں کے کاموں میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک موسو مردوں کے پاس کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، اس لئے قبیلے میں ان کا کردار محدود ہوتا چلا گیاتاہم موسومرد مچھلیاں پکڑنے اور مویشیوں کی خرید و فروخت اور دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں۔ مویشی ذبح کرنے کا کام مردوں تک محدود ہے، عورتیں اس کام میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ موسو قبیلہ کے بیشترلوگ جھیل کے کنارے آباد ہیں،علاقہ اپنی خوبصورتی کے باعث لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے چنانچہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمدورفت بڑھ گئی ہے۔ موسوﺅں کی ”والکنگ میرج“ کی آڑ میں عصمت فروشی کو یہاں قانونی درجہ حاصل ہے۔ یہ نیا کاروبار موسو ثقافت کو سخت نقصان پہنچارہا ہے اور اب خدشہ ہے کہ موسوثقافت زیادہ عرصہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔